اپنی بات

جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا

(”صوفی ازم“ کا فروغ۔ حکومت کا نیا ایجنڈا)

مدیر اعلیٰ صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری کے قلم سے

قارئین کرام!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

            آج کل سلطنتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ”ایوان ہائے قصرِ سلطانی“ کی غلام گردش میں ”صوفی ازم“کے بڑے چرچے سننے میں آرہے ہیں اور یہ کہا جارہا ہے کہ اگر ”صوفی ازم“ کو ایک منصوبہ بندی کے تحت فروغ دینے اور اس کی نشر و اشاعت میں اعانت کی جائے تو پاکستانی قوم کے ذہن اور مزاج سے انتہاپسندی، تشدد، بنیاد پرستی اور دہشت گردی جیسے رجحانات کا ازالہ ممکن ہوسکتا ہے، کیونکہ تصوف لوگوں میں توکل، اخلاقِ حسنہ، محبت، صبر و تحمل، شکر و قناعت، تسلیم و رضا، عجز و انکساری اور شرم و برداشت کا شعور اجاگر کرنا ہے۔ لوگ جب اس روش کو اختیار کریں گے تو ان کی روحانیت میں اضافہ ہوگا جس سے معاشرہ شدت پسندی کے رجحانات سے دور ہوتا چلاجائے گا۔

            ہم اہلِ سنت وجماعت کو فروغِ تصوف کی افادیت سے بالکل انکار نہیں کیونکہ ہم اُمّتِ مسلمہ کا وہ سوادِ اعظم ہیں جو شریعت و طریقت پر مبنی تمام اعمال و عادات و اطوار پر سختی سے عمل پیرا ہیں جو ہمیں اپنے آباءو اجداد اور سلف صالحین سے ملے ہیں اور جو امت کے علماءو فقہا کے ان اجتماعی مسائل سے قطعاً متصادم نہیں ہیں جو کتاب اللہ یعنی ”الکتاب“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے ماخوذ و مستنبط ہیں۔

            علامہ السید یوسف السید ہاشم الرفاعی مدظلہ العالی جو کویت میں سلسلہ رفاعیہ کے عظیم بزرگ ہیں، اپنی کتاب ”التصوف والصوفیائ، فی ضوءالکتاب والسنۃ“(اردو ترجمہ: صوفیا اور تصوف۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں) اپنی کتاب کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں کہ ”صوفیہ“ کے اس لقب کا اطلاق آج ان مسلمانوں پر ہوتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت اور اسراءو معراج کی یاد میں جلسے اور اجتماعات منعقد کرتے ہیں۔ اس طرح یہ حضرات عالمِ اسلام میں اپنے اسلاف کرام کے طریقہ پر قائم ہیں یعنی وہ (حضرات) فریضہ حج یا عمرہ کی ادائیگی سے قبل یا بعد مدینہ منورہ میں روضہ نبوی علیٰ صاحبہ التحیۃ والثناءکی زیارت کرتے ہیں۔ اللہ کے ذکر کے لئے تسبیح کا استعمال کرتے ہیں، دمِ مرگ میت کو کلمے کی تلقین کرتے ہیں، وہ عبرت حاصل کرنے کے لئے زیارتِ قبول کرتے ہیں اور قرآنِ کریم پڑھ کر اپنے رشتہ دار اور دیگر مرحومین کے لئے ایصالِ ثواب کرتے ہیں، جیساکہ مسلمانوں کے اکثر شہروں اور ملکوں میں اس کا تعامل ہے۔“

            اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو حضرات ”صوفیائ“ کرام کی طرف منسوب ہیں وہ امتِ مسلمہ کا وہ سوادِ اعظم اور خاموش اکثریتی طبقہ ہیں جو ان دینی اعمال اور مذہبی عادات و اطوار پر سختی سے عمل پیرا ہیں جو انہیں اپنے آباءو اجداد اور اسلاف کرام سے ورثہ میں ملے ہیں اور جو امت کے علماءو فقہا کے ان اجماعی مسائل سے قطعاً متصادم نہیں اور جو اللہ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنبط ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم

علیکم بالسوادِ اعظم (مشکوٰۃالمصابیح)

(تم پر سوادِ اعظم کی پیروی کرنا لازم ہے۔)

            ہم چودھری شجاعت حسین صاحب، صدر پاکستان مسلم لیگ(ق) کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے ”تصوف“ کی راہ و رسم سے بے خبر ہونے کے باوجود مسلمانانِ پاکستان کو ایک دل خوش کن خبر سنائی ہے لیکن ہمیں افسوس ہے کہ جناب چودھری صاحب کا تاریخِ اسلام کا یا تو بالکل مطالعہ نہیں ہے، یا ہے تو سنا سنایا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ”فرمانِ سلطانی“ کے ذریعہ کبھی بھی تصوف کے معاملات و معمولات کا نفاذ نہیں ہوا ہے۔ ان کی سوچ کا یہ انداز اسلامی تصوف کی تاریخ اور شریعت و طریقت کی روح سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے۔

            اسلامی تصوف دینِ خالص اور اللہ تعالیٰ کے لئے نیت کو خالص کرنے کا نام ہے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس پر نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان قائم تھے، پھر اس کے بعد ان کے تربیت یافتہ تابعینِ کرام اور تبع تابعین کرام قائم ہوئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ یعنی ظاہر و باطن میں دین پر عمل اور دین کے تینوں شعبوں (اسلام، ایمان اور احسان) میں رسوخ اور پختگی، جن کا ذکر اس حدیثِ جبرائیل میں وارد ہے جس کے راوی امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔

            خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمان قرن اول، قرن دوم اور قرن سوم میں اسی حال پر تھے جیسا کہ رسول اللہﷺ کی حدیث مبارکہ میں آیا ہے (یعنی سب سے اچھا زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو ان سے قریب ہیں، پھر ان کا جو ان سے قریب ہیں)۔

            قرن سوم کے بعد جب خلفاءراشدین کی برکات اسلامی سلطنت سے ختم ہوگئی، خلافتِ راشدہ کی جگہ ملوکیت و امارت نے لے لی، فتوحاتِ اسلامی کے سبب اسلامی سلطنت کی سرحدیں وسیع تر ہوئیں، مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط ہوا تو غیر اسلامی، فلسفہ، اجنبی زبانیں اور رسم و رواج مسلم معاشرہ میں داخل ہوئے تو دینِ اسلام کی حفاظت و صیانت اور اس کی طرف سے دفاع کے لئے تابعین، تبع تابعین اور پھر ان کے تربیت یافتہ باکمال مخلص افراد (عبّاد و زہّاد، فقہاءو صلحائ، محدثین و اتقیاءاور عارف باللہ) اٹھ کھڑے ہوئے تاکہ لوگوں کے سامنے دینِ خالص کو ثابت کریں اور اس حالت کو ثابت کریں جس پر قرنِ اول کے مسلمان قائم تھے یعنی مقامِ احسان میں پختگی اور ظاہر و باطن میں مکمل طور پر دین پر عمل اور یہ اہلِ تصوف تھے۔ اس طرح تصوف کی اصطلاح اس جماعت کا نشان و علم اور شناخت بن گئی جو حق پر قائم تھی اور قیامت تک قائم رہے گی۔

            یہی جماعت اور اس کے افراد ہی روحانیت بانٹ سکتے ہیں اور معاشرے میں روحانی اقدار کو فروغ دے سکتے ہیں۔ سرکاری اور درباری سرپرستی میں یہ نہیں ہوسکتا، نہ ماضی میں کبھی ہوا ہے اور نہ مستقبل میں ہوگا۔

            بہرحال حجت قائم ہے اور وہ قرآن و سنت ہے۔ لہٰذا اب چودھری شجاعت حسین صاحب ہوں یا پرویز الٰہی صاحب یا شیخ رشید صاحب یا اعجاز الحق صاحب یا سرکاری درباری پارٹی کا کوئی اور فرد یہ دعویٰ کرے کہ وہ متبع شریعت صوفی ہے اور ”صوفی ازم“ کے فروغ کے لئے کام کرے گا مگر وہ اپنے اقوال و اعمال و عقائد میں قرآن و سنت کی مخالفت کرے تو اس کا دعویٰ مردود ہے۔

            پھر جو شخص تصوف کا ذوق اور قرآن و حدیث کا بنیاد اور حقیقی علم حاصل کئے بغیر اس سلسلے میں رائے زنی اور اظہارِ خیال کرتا پھرے اور صوفیائے کرام اور اہل اللہ سے کھلے عام بے رغبتی کا بھی اظہار کرے، صوم و صلوٰة کا پابند ہونا ایک طرف منہیات کا کھلم کھلا مرتکب ہو، تاحیات اہلِ اللہ کی صحبت اور وصال شدہ اولیائے کرام کے مزارات پر جانے سے قصداً گریز کرے، بلکہ وہ ایسے لوگوں میں اٹھے بیٹھے اور ان کے جلسوں اور اجتماعات میں جائے جو کھلے ہوئے بدعقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ اولیائے کرام کے گستاخ ہوں اور وہ ان لوگوں کا مداح ہو کہ جن کی محفلوں میں حضرت سیدنا محی الدین جیلانی غوثِ اعظم، حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری داتا گنج بخش اور حضرت سیدنا معین چشتی خواجہ غریب نواز (علیہم الرحمۃ) کے نام نامی پکارنا سنگین جرم قرار پائے اور جن کے دارالافتاءسے اس پکار پر شرک کا فتویٰ صادر ہو، راہِ سلوک کی اہم ریاضت ”تصورِ شیخ“ پر اس قدر برہم ہوں کہ حالتِ نماز میں مرشدِ کائنات، ہادیٔ برحق نبی اکرمﷺ کی ذاتِ مقدسہ کا خیال آجانے کو بھی شرکِ جلی قرار دے کر یہ فتویٰ صادر کریں کہ اس سے بہتر ہے کہ نماز میں اپنے پیارے پالتو جانور گائے بیل کا تصور کرکے اپنی نماز ادا کریں اس میں ثواب بھی زیادہ اور لذت بھی زیادہ ہو، تو ایسے افراد کے ”صوفی ازم“ کو فروغ دینے کے اعلان پر یقینا ہر صحیح العقیدہ مسلمان کے کان کھڑے ہونا ایک فطری عمل ہے۔ پھر ایسا شخص اولیاءو صلحاءو ائمہ کے درمیان اپنے آپ کو حکم بنالے اور ان کی حقیقت سے ناواقف ہونے کے باوجود ان کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرے، قرآن و سنت کی تصریحات و تشریحات کو نہ سمجھتے ہوئے بھی (بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ کلامِ الٰہی کو صحیح تلفظ اور مخرج کے پڑھنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوئے بھی) ان کی زبردستی تاویل کرکے خود اس کی مراد تعین کرے اور ہمارے ائمہ کرام علیہم الرحمۃ نے ان کی جو مراد بیان کی ہیں ان سے قصداً صرفِ نظر کرے، اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو نہ صرف توڑے بلکہ حدود اللہ کے خلاف ایوانِ حکومت میں قانون سازی کروائے، تو یہ اس کے نفس کی خباثت ہے یا جہلِ مرکب یا یہ دونوں ہی باتیں ہیں۔ لہٰذا اسلامی تصوف اور صوفیائے کرام کے بارے میں نہ صرف یہ کہ اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ ہمیں سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گا کہ یہ “His Maste’s Voice” ہے۔ (یہ کسی بیرونی آقا کی آواز ہے۔) یہ کس کا ایجنڈا ہے؟ انکل سام کا یا من موہن سنگھ کا؟ یا دونوں کا مشترکہ؟ کیونکہ ”صوفی ازم“ کے فروغ کی ایک آواز کچھ عرصہ پہلے دہلی سے اٹھ چکی ہے اور اب چودھری شجاعت حسین صاحب کی آواز اسی کی بازگشت ہے۔ ظاہر ہے کہ جب یہود و ہنود و نصاریٰ کے استعمار کے سرپرست اعلیٰ ”انکل سام“ کی طرف سے اسلام، مسلم ممالک، یا مسلمانوں کی ہمدردی میں کسی نئے پروگرام کا اعلان ہوتا ہے تو وہ یقینا مسلمانوں کے اعمال و افکار کو مزید سیکولر بنانے کے لئے ہوتا ہے۔ ان کے مفاد کے لئے نہیں بلکہ ان کے عذاب کے لئے ہوتا ہے، ان کے اتحاد و اتفاق کے لئے نہیں بلکہ ان میں انتشار و افتراق پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے۔

            لہٰذا ”صوفی ازم“ کے فروغ کا جو نعرہ ایوانِ حکومت کے بعض گماشتوں اور حکمراں جماعت کے بعض سرکردہ لیڈروں نے لگایا ہے اور جس کو وہ صوفی ازم کے فروغ کا ایک ادارہ بناکر عملی جامہ پہنانے کا اعلان الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر کرچکے ہیں یہ لبرل صوفی ازم یا سیکولر صوفی ازم کا وہی نظریہ ہے جس کی تصویر کشی یورپ کے مستشرقین صلیبی جنگوں کے دور سے کرتے چلے آئے ہیں جو رقص و سرود، ساز و مزامیر، متصوفانہ اشعار کی حیا باختہ گلوکاراؤں کی گائیکی اور گیان دھیان کی صیہونی اور ہندوانہ رسم و رواج اور لہو و لعب سے عبارت ہے۔ مستشرقین نے ”صوفی ازم“ کے اس پہلو پر بہت زور دیا ہے کہ اہلِ تصوف انسانیت نواز ہوتے ہیں، وہ ہر دین و مذہب یعنی کافر و مسلم سے یکساں محبت کرنے والے ہوتے ہیں اور ان کی محفل میں ہر ایک دین و مذہب کا لحاظ و رعایت رکھی جاتی ہے، وہ مذہب کے نام پر کسی کی دل آزاری نہیں کرتے۔ دوسرے الفاظ میں وہ ایک سیکولر معاشرہ جسے ہمارے حکمرانوں بشمول جناب چودھری شجاعت حسین صاحب نے روشن خیالی سے مشرف کیا ہے، کی بنیاد رکھتے ہیں (معاذ اللہ) ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ایک عرب شاعر نے تصوف کی کیا خوب تعریف کی ہے:

لیس التصوف لیس الصوف ترقعہ

ولا بکاؤک ان غنی المغنونا

(تصوف اونی کپڑے یا پیوند لگے ہوئے کپڑے پہننے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی اس کا نام ہے کہ گانے والوں کے گائے پر تم آنسو بہاؤ۔)

ان التصوف ان تصفو بلاکدر

وتحفظ العلم والاخلاق والدینا

(تصوف تو یہ کہتا ہے کہ تمارا باطن صاف ستھرا ہو، کوئی گندگی اور کدورت نہ ہو اور یہ کہ تم اپنے علم، اخلاق اور دین کی حفاظت (اور تبلیغ) کرو۔)

لیس التصوف ثوباً انت لابسہ

تزھو بہ بین اصناف الدوانیا

(تصوف کوئی ایسا لباس نہیں جسے تم پہن کر طرح طرح کے لوگوں کے درمیان فخر کرو۔)

بل التصوف ایمان و معرفت

و خدمت لفقیر او لمسکین

(بلکہ تصوف ایمان و معرفت اور فقیر و مسکین کی خدمت کا نام ہے ۔)

وھو التھجد فی اللیل البھیم اذا

نام الانام لیوم الحشر والدین

(اور وہ تاریک رات جبکہ مخلوق سوجائے تو حشر اور روزِ جزا کے لئے تہجد پڑھنا ہے۔)

وھو الجھاد جھاد النفس عن سفہ

وشھوة الاعیب الشیاطین

(اور وہ جہادہے (جہادِ اکبر و جہادِ اصغر) یعنی نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے، اور حماقت، شہوت اور شیاطین کے لہو و لعب سے پرہیز کرنا ہے۔)

            اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلامی تصوف کا اس لہوو لعب والے ”صوفی ازم“ سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے حکمران بھلے شاہ، امیر خسرو اور بابا فرید شاہ مٹھن کوٹ والے (علیہم الرحمة) کی کافیاں، دوہے، گیت اور غزلوں کی آڑ میں حیاباختہ نوخیز گلوکاراؤں کی آواز میں ساز و مزامیر کے ساتھ سیکولر صوفی ازم کے شیدائی مرد و زن کی مخلوط مجلسوں میں پیش کررہے ہیں۔

            صوفیائے کرام شریعت و طریقت کے جامع ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ظاہر و باطن کی صفائی کے ساتھ ساتھ اپنے علم و اخلاق اور دینِ اسلام کی حفاظت اور نشر و اشاعت کا احسن فریضہ بطریقِ احسن و اکمل انجام دیتے ہیں، یہ صوفیائے کرام ہی تو ہیں جنہوں نے اپنے اخلاقِ عالیہ اور ظاہری و باطنی علوم میں رسوخ کی بناءپر لاکھوں لاکھ غیرمسلموں کو دینِ فطرت اسلام سے ہم آغوش کیا اور اکنافِ عالم میں کفار و مشرکین کے مراکز میں پہنچ کر اسلام کی تبلیغ کی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے اپنے اخلاقِ عالیہ، کردار و گفتار اور سادگی و فروتنی کی بدولت لوگوں کے دلوں کو جیتا اور انہیں مشرف بہ اسلام کرکے انہیں آقا و مولیٰ سید عالمﷺ کا جانثار شیدائی بنادیا۔ لیکن جب بھی دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں پر کوئی برا وقت آیا یا اسلامی سلطنت کو کفار و مشرکین کی فوجوں سے کوئی خطرہ درپیش ہوا تو صوفیائے کرام نے اپنے تمام مریدوں اور شاگردوں کے ساتھ جہادِ فی سبیل اللہ میں حصہ لے کر سلطنتِ اسلامی کی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیا ہے اور ان میں بعض نے اس ”جہادِ اصغر“ میں جامِ شہادت بھی نوش کیا ہے۔

            اس کی بے شمار مثالیں تاریخِ اسلام کے اوراق میں رقم شدہ ہیں۔ یہاں ہم صرف ایک مثال پیش کرتے ہیں:

            بعض حضرات خیال کرتے ہیں کہ صوفیائے کرام ہر قیمت پر ظلم کو برداشت کرنے کی تعلیم دیتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی ہر ایک انسان کے ساتھ امن و آتشی چاہتا ہے اور اسی کی تعلیم دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے نبی کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ کا پیروکار ہوتا ہے۔ وہ ان کی صراطِ مستقیم پر چل کر غیرمسلموں سے بھی حسنِ سلوک سے پیش آتا ہے اس لئے کہ اس کو معلوم ہے کہ نبیِ رحمتﷺ تمام بنی نوع انسان کے لئے نبی بناکر مبعوث کئے گئے ہیں لیکن جب اللہ کی راہ میں جہاد کا وقت آتا ہے وہ سب سے آگے ہوتا ہے۔ صوفی کے لئے مشہور مقولہ ہے کہ وہ رات کے شبِ زندہ دار اور عبادت گذار اور دن کے گھڑسوار مجاہد ہوتے ہیں۔ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر علیہ الرحمۃ سلسلہ چشتیہ کے عظیم صوفی بزرگ ہیں۔ ان کی تبلیغ سے لاکھوں غیر مسلم اسلام کے دائرے میں داخل ہوئے۔ ان کے صاحبزادے حضرت شیخ نظام الدین شہید علیہ الرحمۃ جو خود بھی صوفی تھے اور علم و فضل میں بڑا مقام رکھتے تھے، جب دین کے لئے جہاد کا وقت آیا تو وہ سب سے آگے تھے اور لڑتے لڑتے جامِ شہادت نوش کیا۔ اسی طرح حضرت فرید الدین گنج شکر علیہ الرحمۃ کے پوتے حضرت شیخ بابا تاج الدین سرور علیہ الرحمۃ بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔

            صوفی ازم اللہ کی راہ سے فرار نہیں سکھاتا۔ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کے احکامات پر سختی سے عمل پیرا ہونے اور ان کی راہ میں جان دینا سکھاتا ہے۔ وہ مظلوم کی حمایت اور ظالم کے ساتھ بھلائی کا راستہ اختیار کرنے کا سبق دیتا ہے یعنی ظالم کو ظلم سے روکنا ہی اس کے ساتھ بھلائی ہے۔ شریعت و طریقت عین اسلام ہیں۔ لہٰذا صوفی ازم اسلام سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ غریبوں کے مداوے کے لئے کوششیں کریں، لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کریں، لاقانونیت اور اسٹریٹ کرائمز کو ختم کریں، اللہ کی زمین پر اللہ مالک و مولیٰ نے ان کو جو اقتدار بخشا ہے تو وہ اس خطۂ ارضی پر اس کے قانون کو نافذ کرنے کی کوشش کریں، معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کو یقینی بنائیں۔ کہاگیا ہے کہ صوفی باصفا احسان اور حضورِ قلب سے لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتا ہے اور خشیت الٰہی رکھنے والا حاکم عدل و انصاف کے قیام سے۔ امیر المؤمنین حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم وقت کے حکمرانوں کو خصوصاً اور عامۃ المسلمین کو عموماً مخاطب فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

 ”خدا کے بندو! قبل اس کے کہ میزان (حشر) میں تمہیں تولا جائے، تم خود اپنے تئیں تول لو۔ خود اپنا محاسبہ کرلو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ (میدانِ حشر میں) کیا جائے۔ رسن گلوگیر (موت) سے پہلے اچھی طرح سانس لے لو (اچھے نیک کام انجام دے لو)، اطاعت شعار بن جاؤ  قبل اس کے کہ عذاب کی سختی تمہیں کھینچ لے جائے۔“    (بحوالہ ماہنامہ ماہِ نور، دسمبر 2006ء، ص:46، دہلی)

            ہمارے حکمراں حدود اللہ کے خلاف قانون سازی کرکے اور سیکولر صوفی ازم (ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، روحانی بھائی بھائی) کی تشہیر و تبلیغ کرکے یقینا اللہ واحد القہار کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں جو ملک اور قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں پناہ میں رکھے۔

             اگر بھارت میں من موہن سنگھ کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ صوفی ازم کے فروغ کے لئے وہ روحانی مراکز قائم کریں تو ہمیں ان کی نقل میں صوفی ازم کے فروغ کے لئے وزارتیں اور ادارے قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ ان لوگوں کو تقویت دینے کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے جو صوفیائے کرام کے قائم کردہ خانقاہی نظام پر یقین رکھتے ہیں اور ان مدارس اور علمائے کرام کی ہمت افزائی کرنی چاہئے جو علومِ اسلامی اور تراثِ اسلامی کے حصہ کے طور پر تصوف کو اپنی مسندوں پر فروغ دے رہے ہیں۔ اسی طرح ان افراد اور اداروں پر کڑی نظر رکھنی چاہئے جو اپنے مسندوں پر صوفیائے کرام کے خلاف توہین آمیز نظریات کو فروغ دے کر تاریخِ اسلام کو مسخ کرنے اور فرقہ واریت اور دہشت گردی کو ہوا دینے کی کوششیں کررہے ہیں۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے نصاب میں صحیح اسلامی تعلیمات اور صوفیائے کرام کے تذکروں اور تعلیمات کو شامل کیا جائے اور خود تصوف کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ جیسا کہ امام احمد رضا اور ان سے قبل کے بزرگ (علیہم الرحمۃ) نے اپنے مدارس کے نصاب میں تصوف کو بھی شامل کر رکھا تھا اور تصوف کی مشہور کتاب رسالۂ ”قشیریہ“ کا باقاعدہ درس دیا جاتا تھا۔

            یادش بخیر آج سے پونے دو سو سال قبل بھی برطانوی سامراج نے غیر منقسم ہندوستان میں اسی طرح کا ایک ایجنڈا دیا تھا لیکن وہ ایجنڈا خانقاہی نظام کو تباہ کرنے، علمائے حق اور صوفیائے باصفا کی عظمت و محبت کو مسلمانوں کے دل سے مٹانے کا ایجنڈا تھا۔ برطانوی سامراج نے مسلمانوں ہی میں سے جبہ و دستار والے نام نہاد علماءتلاش کرلئے تھے، یہ وہ حضرات تھے جن کے ڈانڈے شیخِ نجد کے شاگردوں سے ملتے تھے۔ چنانچہ فورٹ ولیم کالج (کلکتہ) میں باقاعدہ تصنیف و تراجم کا ایک سیل قائم کیا گیا تھا جس میں پچاس روپے ماہوار پر علمائے سوءکو نوکر رکھا گیا اور دل آزار کتاب ”تقویۃ الایمان“ (جسے تفویت الایمان کہنا مناسب ہے) کہ جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ، اولیاءاللہ اور اہل ِ تصوف کی شان میں کھل کر گستاخیاں تحریر ہیں، اس کی مفت اشاعت اور تقسیم کا انتظام کیا گیا۔

            سرفراز خاں صاحب اپنی تالیف قصۂ نجد (ص:53) پر رقم طراز ہیں:

            ”ہند میں صوفیائے کرام کے پیروکاروں کوایک دم چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا، اس کے لئے ایک متوازی محاذ قائم کرنے کی ضرورت تھی اور وہ ضرورت سید احمد اور شاہ اسمٰعیل نے پوری کردی۔ برصغیر میں مسلمانوں کی دو بڑی قوتیں شیعہ، سنی لڑبھڑ کر تھک گئے، انہیں مزید لڑانا انگریز کے لئے آسان نہ تھا۔ اس کا بدل نجدیت کو درآمد کرکے ہی ممکن تھا۔“

            یہی نہیں بلکہ بطورِ انعام و نوازشات فرنگی حکومت نے انہیں برطانوی شہریت بھی بخشی، یہی وجہ ہے کہ آج برطانیہ میں زیادہ تر دینی مدارس انہی فرنگی دوست علماءکے تلامذہ یا تلامذة التلامذہ کے قائم کردہ ہیں۔ اس سے ان کے آپس کے ربط کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔

            قارئین کرام! یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ برطانوی استعمار کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جو افراد یا گروہ آلہ کار بنا ان کا تعلق گستاخانِ رسول و اولیاءسے تھا اور آج امریکی استعمار کے تازہ ایجنڈہ شروعی حدود میں ترمیم و تنسیخ اور صوفی ازم کی جدید تشریح و تبلیغ کے لئے جو لوگ آلۂ کار ہیں، ان کی بھی ذہنی ہم آہنگی اسی گروہ کے ساتھ ہے جس کو عرف عام میں وہابی کہا جاتا ہے۔ یہ عوامِ اہلِ سنت کے لئے عموماً اور علماءو مشائخِ اہلِ سنت کے لئے خصوصاً لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی صفوں میں اتحاد، یکجہتی، ہم آہنگی اور نظم و ضبط پیدا نہ کیا اور خانقاہی نظام میں در آئی خرابیوں کو درست کرکے اہل حضرات یعنی صاحبانِ علم و معرفت کو مسندِ ارشاد و تبلیغ پر صدر نشین کیا تو نتائج کے ذمہ دار ہم خود ہوں گے۔ دشمنانِ اسلام کا ایجنڈا آپ کے سامنے ہے

ز راہِ میکدہ یاران عنان بگرداند

چرا کہ حافظ ازین راہ رفت مفلس شد