لطیفہ نمبر 2 :-
مہتمم دیوبند کے خلاف مفتی دیوبند کا فتوٰی
ملحد، بے دین، عیسائیت و قادیانیت کی روح

قاری طیب جب تک توبہ نہ کریں ان کا بایئکاٹ کیا جائے، ہمارے علماء کے مشاغل دینیّہ کی عبرت انگیز مثالیں !
2 جنوری ہفت روزہ ‘‘ دور جدید‘‘ دہلی کی موٹی موٹی سرخیاں !
اسی فتوے کے بارے میں جناب ابو محمد امام الدین رام نگری اپنے ماہنامہ انوار اسلام ص7 تحریر فرماتے ہیں :-
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سرخیاں کتنی ہولناک اور پریشان کن ہیں ‘‘دور جدید‘‘ کی اسی اشاعت میں دوسری جگہ استفتاء اور صدر مفتی دارالعلوم دیوبند مولانا سیّد مہدی حسن صاحب کا فتوٰی بھی نظر سے گزرا۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا قاری طیب صاحب کی کوئی نئی کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے ‘‘اسلام اور مغربی تہذیب ‘‘ اس کتاب کے بعض اقتباسات سے کسی نے استفتاء مرتب کر کے مولانا مفتی مہدی حسن صاحب کے پاس بھیجدیا- اور کتاب کا حوالہ نہیں دیا ، مفتی صاحب نے شریعت کا حکم بیان کر دیا۔ بعد ازاں مستفتی نے استفتاء اور فتوٰی اس وضاحت کے ساتھ کہ اقتباسات حضرت مہتمم صاحب کی کتاب کے ہیں۔ اخبار ‘‘دعوت‘‘ میں شائع کیا۔ ( انوار اسلام فروری 63ء ص7 کالم2)
اب اخبار ‘‘ دعوت‘‘ ملاحظہ فرمائیں ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ اگر کوئی عالم دین ‘‘ فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشراً سویاً کی تشریح اور اس سے درج ذیل نتائج اخذ کرتے ہوئے اس طرح لکھے:
اقتباس 1 :- یہ دعوٰی تخیل یا وجدان محض کی حد سے گزر کر ایک شرعی دعوٰی کی حیثیت میں آجاتا ہے کہ مریم عذرا کے سامنے جس شبیہہ مبارک اور بشر سویّ نے نمایاں ہو کر پھونک ماردی وہ شبیہ محمدی تھی۔
اس ثابت شدہ دعوے سے مبیّن طریق پر خود بخود کھل جاتا ہے کہ حضرت مریم رضی اللہ عنھا اس شبیہہ مبارک کے سامنے بمنزلہ زوجہ کے تھیں جب کہ اس کے تصرف سے حاملہ ہوئیں۔
اقتباس2:- پس حضرت مسیح کے ابنیت کے دعوے دار ایک ہم بھی ہیں مگر ابن اللہ مان کر نہیں بلکہ ابن احمد کہکر خواہ وہ ابنیت تمثالی ہی ہو۔
اقتباس3:- حضور تو بنی اسرائیل میں پیدا ہو کر کل انبیاء کے خاتم قرار پائے اور عیسٰی علیہ السلام بنی اسرائیل میں پیدا ہو کر اسرائیلی انبیاء کے خاتم کئے گئے جس سے ختم نبوت کے منصب میں ایک گونہ مشابہت پیدا ہو گئی۔ ( ابو لد سر لابیہ)

اقتباس4:-
بہرحال اگر خاتمیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کو حضور سے کامل مناسبت دی گئی تھی تو اخلاق خاتمیت میں بھی مخصوص مشابہت و مناسبت دی گئی جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عیسوٰی کو بارگاہ محمدی سے خَلقاً و خُلقاً ،رتباً ومقاماً ایسی ہی مناسبت ہے جیسی کہ ایک چیز کے دو شریکوں میں یا باپ بیٹوں میں ہونی چاہئے۔

براہ کرم مندرجہ بالا اقتباسات کے متعلق قرآن حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اس کی صحت اور عدم صحت کو ظاہر کر کے بتائیں کہ ایسا شرعی دعوٰی کرنے والا اہلسنت والجماعت کے نزدیک کیسا ہے؟ (المستفتی)
الجواب :- جو اقتباسات سوال میں نقل کئے ہیں اس کا قائل قرآن عزیز کی آیات میں تحریف کر رہا ہے بلکہ در پردہ قرآنی آیات کی تکذیب اور ان کا انکار کر رہا ہے ، جملہ مفسرین نے تفاسیر میں تصریح کی کہ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے جو مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے ۔ وہ شبیہہ محمدی نہ تھی ، آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ نے کبھی یہ نہ سمجھا کہ ان مثل عیسٰی عند اللہ کمثل اٰدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون ۔ کلمۃ القاھا الٰی مریم و روح منہ، فارسلنا الیھا روحنا فتمثل لھا بشرا سویا ( الٰی قولہ تعالٰی) فقال انما انا رسول ربک لاھب لک غلاما زکیا۔ قال ربک ھو علی ھین ولنجعلہ اٰیۃ للناس الٰی اٰخر الاٰیات۔ ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین کے قائل تھے اور اسی پر اجماع امت ہے کہ وہ فرشتہ تھا جو حضرت مریم کو خوشخبری سنانے آیا تھا۔ شخص مذکور ملحد و بے دین ہے اور اس ضمن میں عیسائیت کے عقیدے عیٰسی ابن اللہ کو صحیح ثابت کرنا چاھتا ہے جس کی تردید علی رؤس الاشہاد قرآن نے کی ہے نیز لا تطرونی کما اطرت النصاری عیسٰی بن مریم ( الحدیث)
ببانگ دہل شخص مذکورہ کی تردید کرتی ہے ۔

الحاصل یہ اقتباسات قرآن و حدیث و جملہ مفسرین اور اجماع امت کے خلاف ہیں مسلمانوں کو ہرگز اس طرف کان نہ لگانے چاہئے بلکہ ایسے عقیدے والے کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ جب تک توبہ نہ کرے۔ واللہ تعالٰی اعلم
سیّد مہدی حسن مفتی دارالعلوم دیوبند

اب سنئے کہ عبارت کس کتاب کی ہے اور کس عالم کے قلم سے یہ باتیں نکلی ہیں؟ اسلام اور مغربی تہذیب کے عنوان سے قاری طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند کی نئی کتاب چھپی ہے۔ اسی سے یہ اقتباسات لئے گئے ہیں اور ان ہی اقتباسات پر دارالعلوم کے مفتی صاحب نے فتوٰی یہ دیا کہ ایسے عقیدے والے کا بائیکاٹ کیا جانا چاہئے جب تک کہ وہ توبہ نہ کرے ( دعوت سہ روزہ ایڈیشن 22 دسمبر 1962 ء صفحہ اول بعنوان ‘‘خبر و نظر‘‘)
نبی کریم کے خلاف صف آرا ہونے والوں کا سفینہ ء حیات جب طوفان خود فریبی میں ہچکولے کھانے لگا تو اس ہولناک صورت حال سے پریشان ہو کر حلقہ بگو شان دیوبند یہاں تک کہنے پر مجبور ہوئے۔

استفتاء اور فتوے کی اشاعت اور اس بات کے معلوم ہوجانے کے بعد کہ فتوٰی مولانا محمد طیب کی کتاب کے متعلق ہے ہم نہیں جانتے کہ حضرت مولانا اور مفتی صاحب اور دارالعلوم پر اس کا رد عمل کیا ہوا؟ لیکن مولانا کے افکار و نظریات کو دیکھ کر ہمیں بڑی وحشت ہوئی۔ معلوم نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے، اور اسلام و مغربی تہذیب میں مفاہمت کا یہ کون سا طریقہ ہے جو انہوں نے اختیار کیا ہے؟
ہمیں حیرت ہے کہ مولانا محمد طیب صاحب کے دماغ میں ایسی باتیں کیسے پیدا ہوئیں، کیسے قلم سے نکلیں اور کیسے ان کی اشاعت ہو گئی؟
ناشر بھی تو عالم ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہتمم دارالعلوم کے خلاف مفتی دارالعلوم کا فتوٰے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتنی قابل افسوس اور عبرتناک صورت حال ہے ۔ ( انوار اسلام فروری 63ء ص8 )
بہر حال مفتی دارالعلوم کے فتوے کی روشنی میں مہتمم دارالعلوم مولانا محمد طیب کی شرعی پوزیشن یہ متعیّن ہوتی ہے :-
1: قرآن عزیز کی آیات میں تحریف کرنے کے سبب محرف قرآن ہیں۔
2:بلکہ در پردہ قرآنی آیات کی تکذیب و تردید کے سبب منکر کتاب اللہ اور مکذب آیات قرآن ہوئے۔
3:قاری صاحب موصوف ملحد و بے دین ہیں۔
4:عیسائیت اور قادیانیت کی روح ان کے جسم میں سرایت کئے ہوئے ہے ۔
5:وہ عیسائیت کے عقیدے ‘‘عیسٰی ابن اللہ‘‘ کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
6:مہتمم صاحب موصوف کے یہ اقتباسات قرآن وحدیث اور جملہ مفسرین اور اجماع امت کے خلاف ہیں۔
7:ان کو بائیکاٹ کرنا چاہئے جب تک توبہ نہ کریں۔
مہتمم صاحب موصوف کی اس بے دینی اور الحاد پسندی پر پردہ ڈالنے کے لئے موصوف کےمحب صادق ابو محمد امام الدین رام نگری یہ مشورہ دے رہے ہیں۔

‘‘دعوت‘‘ میں فتوٰے کی اشاعت کے تقریباً ایک ماہ کے بعد یہ شذرہ لکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک جناب مولانا محمد طیب صاحب یا جناب مفتی صاحب کا بیان بھی شائع نہیں ہوا۔ ضرورت ہے کہ کتاب کی اشاعت روک دی جائے ۔
( انوار اسلام فروری 63ء ص8 )
غور فرمائیے ! قاری صاحب پر الحاد و بے دینی کا فتوٰے لگے۔ آج ساتواں سال ہے ۔ یعنی 1962ء میں قاری صاحب ملحد و بے دین قرار دیئے گئے اور آج 1968ء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے ۔ پھر بھی نہ قاری صاحب کو علمائے دیوبند نے بائیکاٹ کیا اور نہ ہی اساتذہ دارالعلوم ان سے قاطع تعلق ہوئے ۔ درانحالے کہ ابھی تک قاری طیب صاحب نے اعلان توبہ نہ کرکے اسی ملحدانہ اور بے دینی کی روش کو اپنا رکھا ہے اس کا کھلا اور واضح مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا شخص جو صدر مفتی دارالعلوم دیو بند کے فتوٰے کی روشنی میں ‘‘ ملحد اور بے دین‘‘ ہو۔ محرف قرآن و مکذب آیات ربانیہ ہو ۔ نیز عیسائیت وقادیانیت کی روح ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دارالعلوم دیوبند کے انتظام و اہتمام کی مسند عالی پر فائز ہو سکتا ہے اور اس منصب کا مستحق اسے قرار دیا جاسکتا ہے۔ایسی صورت میں خود دارالعلوم دیوبند کو، کیا اسلامی اور روحانی ادارہ قرار دیا جاسکتاہے۔جہاں کا مہتمم و منتظم خود وہیں کے صدر مفتی کی نظر میں ‘‘ ملحد و بے دین ‘‘ ہو فیصلہ بذمئہ ناظرین ہے۔