اپنی بات

اے شیخِ حرم برسرِ منبر تِری یہ شعلہ بیانی
صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری کے قلم سے
 
قارئین کرام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
ان ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں امام کعبہ، شیخ القرآن الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس بن عبد العزیز صاحب رونق افروز ہیں جو حکومتِ پاکستان کی دعوت پر تشریف لائے ہوئے ہیں اور تادمِ تحریر یہاں کے مختلف دینی اداروں کے پروگراموں میں شریک ہوچکے ہیں نیز اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ وہ جہاں جاتے ہیں مسلمانانِ پاکستان ان کا والہانہ استقبال کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہئے کہ مسلمانانِ برصغیر ایشیائے کوچک اپنے آقا و مولیٰ، تاجدارِ حرم، شہنشاہِ عرب و عجم سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے منسوب ہر شے سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور حریمین شریفین کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کرنا سعادت سمجھتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ارشاد فرماکر:
لَآ اُقْسِمُ بِھٰذَا الْبَلَدِ O وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھٰذَا الْبَلَدِ O  (البلد 90: 1 تا 2)
(مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو)
روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو حریمین شریفین سے محبت اور اس کے احترام کی تعلیم دی ہے۔ لہٰذا امامِ کعبہ (کسے باشد) سے مسلمانوں کا اظہارِ محبت و عقیدت ایک فطری عمل ہے۔ اس میں امامِ کعبہ کی دستارِ فضیلت اور جبہ مبارکہ کے اندر ملفوف شخصیت کی ذاتی حیثیت کا دخل نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ ان کا والہانہ استقبال کرنے والے ہزاروں مسلمانوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ اس قدر قیمتی، خوبصورت، لباس اور عباء سے مزین اس شخصیت کانام کیا ہے؟ سعودی حکومت سے حرم شریف میں امامت و خطابت کے عوض ان کو کس قدر بھاری رقم بطورِ تنخواہ ملتی ہے؟ اس عظیم منصب پر فائز ذاتِ گرامی کا طرزِ زندگی درویشانہ ہے یا شاہانہ؟ اور رنگ و نسل، مسلک و مشرب کے اعتبار سے ان کی پہچان کیا ہے؟ وہ تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ہمارے آقا و مولیٰ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے ولادت کے متبرک شہر مکۃ المکرمہ سے ان کا تعلق ہے اور بس! اسی لیے پاکستان میں ہمارے محترم مہمانانِ گرامی نے اپنی اس والہانہ محبت کا بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ حکومت اور عوام نے ان کا والہانہ استقبال کرکے صاحبِ اسلام اور مرکزِ اسلام سے اپنی پُرخلوص عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ وہ جہاں جہاں بھی تشریف لے گئے، وہاں انہوں نے مسلمانانِ پاکستان کو پند و نصائح سے نوازا۔ جن امور کی طرف انہوں نے توجہ دلائی، ان سے کوئی مسلمان اختلاف نہیں کرسکتا۔ مثلا:
1۔مسلمانوں کو اپنی اصلاح و فلاح کے لیے قرآن مجید سے روشنی حاصل کرنی ہوگی۔
2۔امّہ کے اتحاد و اتفاق اور اسلامی دنیا کے مسائل کے حل کے لے اجتماعی کوششیں کرنی ہوں گی۔
3۔گروہی اور فرقہ وارانہ اختلافات سے گریز وقت کا تقاضہ ہے۔ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔
4۔ایمان و عقیدہ میں پختگی اور احکاماتِ اسلامی پر پابندی سے عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنی ہوگی۔
(واضح ہو کہ آج سے تقریباً سو سال قبل امام احمد رضا محدثِ بریلوی علیہ الرحمۃ اس نکتہ کی طرف نہایت شدّ و مد کے ساتھ مسلم سائنسدانوں، اسکالرز، محققین اور علمائے وقت کی توجہ دلاچکے ہیں۔ یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔ آج سو سال بعد سرزمینِ حرمینِ شریف سے یہ اسی کی بازگشت ہے۔)
5۔جدید بین الاقوامی حالات کے تناظر میں حکمت و بصیرت کے ساتھ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کے خلاف مغرب کی غلط فہمیاں دور ہوں۔
6۔اسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں۔
7۔”لال مسجد”والے معاشرہ کی اصلاح اور کفار و مشرکین سے جہاد کے لیے شرعاً مکلف نہیں۔ وہ صدر پرویش مشرف کے انتباہ پر لال پیلے نہ ہوں۔ یہ حکومت وقت کا کام ہے، انہیں ہی کرنے دیں۔
8۔اسلام امن و سلامتی کا پیامبر ہے۔ دہشت گرد مسلمان نہیں ہیں۔
یہ تو وہ امور ہیں جن میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس سے کسی کو کوئی اختلاف کی گنجائش ہو لیکن شیخ حرم کی صدرِ مملکت جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد کچھ ایسے امور بھی امامِ حرم کے حوالے سے اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بنے جن کو پڑھ کر پاکستانی عوام انگشت بدنداں رہ گئے کہ امامِ کعبہ نے پاکستان کے اندرونی سیاسی امور اور معاملات پر اظہارِ خیال کرنا اور فتویٰ دینا شروع کردیا۔ امام کعبہ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صدر پرویز مشرف کی حفاظت فرمائے اور انہیں حاسدوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ اخبارات میں اس قسم کے ان کے دیگر ارشادات بھی شہ سرخی بنے۔ انہوں نے فتویٰ دیا کہ ”حکومتِ وقت اور صدرِ مملکت کی اطاعت سب پر لازم ہے۔”وغیرہ وغیرہ۔ امامِ حرم کے اس قسم کے سیاسی بیانات اور فتووں نے جہاں صدر پرویز کے حامی حلقوں کو نہال کردیا، وہاں ان کے مخالفین خاص طور پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی حمایت میں مہم چلانے والی سیاسی پارٹیوں اور ان کے حامیوں کو شدید تعجب اور غم و غصہ میں مبتلاء کردیا۔ بلکہ انہی کے ہم مسلک و ہم عقیدہ معروف کالم نگار جناب عطاء الحق قاسمی نے جو اس سے قبل امامِ حرم کا نہایت ادب و احترام کے ساتھ نام لے رہے تھے، اس پر فوری ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ ”شیخِ حرم نے صدر پرویز کے خلاف سیاسی تحریک چلانے والے عوام اور سیاسی رہنماؤں کو حاسد قرار دیا ہے اور آمریت کے حق میں دعا دی ہے۔”ملک کے ایک اور بڑے کالم نگار نے شیخِ حرم کے بیانات کو ایک ”سرکاری ملازم”کے افکار قرار دیا ہے۔ (واضح ہو کہ شیخ حرم موصوف حکومت سعودیہ کے ایک تنخواہ دار ملازم ہیں۔)
بہرحال! شیخِ حرم کے اس قسم کے بیانات سے بہت سے لوگوں کے دل افسردہ اور آنکھیں نمناک ہیں اور مہمان ”مردِ حق”کے لیے ہمارے ملک میں جو احترام و محبت کی فضاء بنی تھی، اب وہ مکدر ہوتی نظر آرہی ہے۔ علامہ اقبال نے سچ فرمایا:
سینہ افلاک سے اٹھتی ہے آہِ سوزناک
مردِ حق ہوتا ہے جب مرعوبِ سلطان و امیر
عوام نے شیخِ حرم محترم کا جو والہانہ استقبال کیا وہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ایک مقدس سرزمین کہ جہاں پیدائشِ مولیٰ کی دھوم ہے، کے منسوب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جگہ جگہ جمع ہوئے۔ انہیں اس سے غرض نہیں تھی کہ جو صاحب شیخ حرم کی مقدس عباء میں تشریف لائے ہیں، ان کے ذاتی کوائف کیا ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کے پڑھے لکھے طبقے کے افراد اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے احباب بشمول کالم نگار حضرات کو تو ان تمام باتوں کا علم ہے۔ پھر وہ اس بات کو کیوں نہ سمجھ سکے کہ ہمارے مہمان محترم
وہ آئے نہیں بلائے گئے ہیں
مدرسہ جامعہ اشرفیہ، لاہور کے ساٹھ سالہ جشنِ تاسیس کا اسٹیج ہو یا ایوانِ صدر کی ضیافت گاہ، یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کی بساط گاہ تھی ورنہ آپ سوچیں کہ جن شیخِ حرم کے نزدیک سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا جشنِ ولادت منانا اور اس کے لیے تعینِ تاریخ و وقت و جگہ دونوں حرام ہوں وہ تعینِ تاریخ و وقت اور جگہ کے ساتھ اس جشن ساٹھ سالہ میں شرکت کی حرام دعوت کو قبول فرمارہے ہیں   ع
ناطقاں سربگریباں ہے اسے کیا کہیے؟
قارئین کرام! جب مدرسہ اشرفیہ (لاہور) کی بات چل نکلی ہے تو یہ بھی وضاحت کردی جائے کہ ان حضرات اور ”لال مسجد”والوں کے اگرچہ پیرانِ کرائم ایک ہی ہیں لیکن ان کے رنگ علیحدہ ہیں۔ ”لال مسجد”والے بات بات پر کبھی لال کبھی پیلے کبھی دونوں ہوتے رہتے ہیں لیکن ”اشرفیہ”والے چونکہ نہایت سادہ لوح اور مخلص قسم کے ”صلح کلی”ہیں اس لئے سفید رنگ کو پسند کرتے ہیں لیکن چونکہ ملک کے ”سفید و سیاہ کے مالک”اشرفیہ سے روز تاسیس سے ان کے گہرے روابط و مراسم رہے ہیں اس لیے کبھی یہ سیاہ عمامے اور جبے بھی استعمال کرلیتے ہیں۔ البتہ کبھی یہ سیاسی جبہ و عمامہ کے اوپر نظر آتی ہے اور کبھی اندر سے جھلکتی ہے۔ غرض کہ یہ باعمل حضرات آج کی دو عملی کے دور میں نہایت سختی سے حالی پانی پتی کی اس ہدایت پر عمل پیرا ہیں  ع
چلو تم ادھر کو، ہوا ہو جدھر کی!
قارئین کرام! آپ کو یاد ہوگا کہ چند ماہ قبل وفاقی وزیر مذہبی امور کے حوالے سے یہ خبریں اخبارات میں آئی تھیں کہ موصوف نے اسلام آباد کی ”لال مسجد”کے معاملات کے حوالے سے ”امامِ کعبہ”سے فتویٰ حاصل کرلیا ہے۔ امام صاحب جلد دوبارہ بطورِ مہمانِ حکومت پاکستان تشریف لائیں گے تو اس موضوع پر اظہارِ خیال فرمائیں گے۔ تو ظاہر ہے کہ ان کی آمد کا مقصد حکومتِ وقت کو سیاسی فائدہ پہنچانا ہی تھا۔
اب رہا اس کا رونا کہ انہوں نے ہمارے ملک میں آمریت کی تائید کی ہے، یہ امر فضولی ہے۔ تاریخِ نجد و حجاز پر نظر رکھنے والے تمام ذی شعور حضرات جانتے ہیں کہ سعودی مملکت کی بنیاد دو خانوادوں کے معاہدے اور شراکتِ عمل سے وجود میں آئی۔ آلِ سعود اور آلِ شیخ (شیخ محمد بن عبد الوہاب کا خاندان)۔ آلِ سعود حکومت کا سیاسی نظام چلانے کے ذمہ دار ہیں جب کہ آلِ شیخ مذہبی امور کی انجام دہی پر مامور ہیں۔ ان لوگوں نے حجاز مقدس کو تاراج کیا، وہاں کے مسلمانوں پر کفر و شرک کے فتوے لگائے اور عوام تو عوام، علماء کو تہہِ تیغ کیا۔ جب نجد و حجاز میں ایک نئی مملکت کی بنیاد رکھی گئی تو اسلام کے شیدائی اور مجاہد ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہاں خلافتِ راشدہ کے نمونے کی جمہوری حکومت قائم کی جاتی (جیسا کہ اس وقت کے صوبہئ نجد کے حکمران ملک عبد العزیز نے پوری مسلم امہ سے وعدہ فرمایا تھا جس کا تحریری ثبوت ہندوستان کی خلافت کمیٹی اور حجاز مقدس کے آثارِ مقدسہ بچاؤ کمیٹی کے ارکان علامہ سید سلمان ندوی اور مولانا محمد علی جوہر کے پاس تھا اور ”تاریخِ نجد و حجاز”مصنفہ مفتی عبد القیوم ہزاروی میں شائع ہوچکا ہے۔) لیکن دنیا نے دیکھا کہ حریمین شریفین کی مقدس سرزمین پر ہزاروں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے اور صحابہئ کرام اور صالحین ِ امت کے تمام مزارات کو تاراج کرنے کے بعد وہاں ”جلالۃ ملک”(آلِ شیخ) کی شہنشاہیت قائم کی گئی۔ گستاخی معاف! یہ شیخانِ حرم اسی شہنشاہیت کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔ یہ جمعۃ المبارکہ کا خطبہ بھی اپنے الفاظ میں نہیں دے سکتے بلکہ شہنشاہِ وقت کی طرف سے تحریرشدہ خطبہ پڑھنے کے مکلف ہیں۔ تو ملوکیت کے سائے میں پروردہ شیخانِ حرم سے آمریت کے خلاف فتویٰ کی توقع ایسا ہی ہے جیسے خار زار زمین پر کوئی نسترین و نسترن، چمپا، چنبیلی اور گلاب کے چمنستان کھلنے کی امید لگائے۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے نمائندے ہمارے ملک میں آزادی صحافت، آزادی تحریر و تقریر، غیرجانبدار اور آزاد عدالتی نظام جس میں انسان کے بنیادی حقوق کی ضمانت ہو، کی آئے دن رٹ لگاتے ہیں، ٹی۔وی پر مذاکرات منعقد ہورہے ہیں، حقوقِ انسانی کی انجمنیں اور سیاسی پارٹیاں اور اکیدیمیات سیمینار منعقد کررہی ہیں۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ جب ہمارے محترم مہمان شیخ حرم نے پریس کانفرنس منعقد کی تو کسی صحافی نے ان سے ان کے ملک کے سیاسی، معاشی اور عدالتی نظام مذہبی و مسلکی تعصب پر مبنی اور شخصی آزادی اور اظہارِ رائے پر قدغن لگانے والے جبر و ظلم کا مذہبی پولیس (متوّہ) نظام کے متعلق کوئی سوال نہیں کیا۔ حالآنکہ حال ہی میں اخبارات میں عالمی حقوق انسانی کی انجمن کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ سعودی عرب کی مذہبی پولیس سے سنگین قسم کی حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیاں مشاہدے میں آئی ہیں۔ اس پولیس کو کسی بھی شہری کے گھر میں گھسنے اور موقع پر معاشرتی جرم پر سزا دینے کے وسیع اختیارات ہیں۔ مذہبی پولیس جس کا جا و بے جا استعمال کرتی رہتی ہے اور ان کے تشدد سے کئی اموات بھی واقع ہوچکی۔ اس سلسلہ میں حقوقِ انسانی کی انجمن نے حکومت سعودیہ پر زور دیا ہے کہ وہ مذہبی پولیس کے اختیارات کو کم کرے اور گھروں میں گھس کر تشدد کرنے، لوگوں کو تشدد کرکے ہلاک کرنے والے پولیس اہلکار کے خلاف مقدمہ قائم کرکے تادیبی کاروائی کرے۔ تفصیلات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مذہبی پولیس مذہبی و مسلکی تعصب اور سعودی اور غیر سعودی کے حوالے سے بھی لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور اس کے خلاف کسی بھی عدالت میں سنوائی نہیں ہوتی۔ ضرورت تھی کہ شیخِ حرم سے درج ذیل سوالات پوچھے جاتے:
1)کیا اسلام کے سیاسی نظام میں ملوکیت اور شخصی نظامِ حکومت کی گنجائش ہے؟
2)کیا ملک کے افرادی، پیداواری اور معاشی وسائل پر شخصِ واحد، یا اس کے خاندان، یا ایک مخصوص گروپ کا قبضہ اور اس میں اپنا من مانا تصرف اسلامی شریعت کی رو سے جائز ہے؟
3)کیا سعودی عرب کے نظامِ عدل کے تحت اور وہاں کے قانون کے تحت عام شہری کے حقوق و مراعات وہی ہیں جو وہاں کے شاہی خاندان کو حاصل ہیں؟
4)کیا خلفائے راشدین کی طرح ”جلالۃ الملک”اعلیٰ عدالت یا پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہیں یا انہیں اس کے برعکس مکمل تحفظ حاصل ہے؟
5)کیا وہاں کی اعلیٰ عدالتیں ملک کے آئین کی تشریح کرنے کی مجاز ہیں؟
6)کیا معاشی استحصال اور حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کے معاملے میں ”جلالۃ الملک”سمیت ہر شخص عدالت کی نظر میں برابر ہے اور اس سے جواب طلبی ہوسکتی ہے؟
7)شیخِ حرم محترم نے مسلمانانِ پاکستان کو فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بین المسلمین اتحاد کو فروغ دینے کا مشورہ دیا ہے جو ایک اچھی بات ہے۔ مملکت سعودیہ میں بھی مختلف مسالک کے افراد آباد ہیں، مثلاً اہلِ سنت، شیعہ، وہابی، پھر مذہب کے حوالے سے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ۔ کیا شیخِ حرم کے ملک میں تمام مذاہب و مسالک والوں کو اپنے اپنے فقہ اور عقیدوں کے مطابق زندگی گذارنے کی کھلی آزادی حاصل ہے؟
8)اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر یہ بتایا جائے کہ ایک ہی مسلک و مذہب کے امام کی اقتداء میں دوسرے مسلک و مذہب والوں کو نماز پڑھنے کے لیے مجبور کیا جانا اور انکار یا نمازِ باجماعت (ثانی) کے اہتمام پر مذہبی پولیس والے اس کو گرفتار کرکے پابندِ سلاسل کیوں کرتے ہیں؟ اور قاضی فوری طور پر انہیں قید و بند کی سزا کیوں سنادیتا ہے؟ کیا شخصی آزادی سلب کرنے کی یہ بدترین مثال نہیں ہے؟
9)شیخ حرمِ محترم آپ نے قیامِ پاکستان کے دوران جہاں جہاں تقریریں کی ہیں آپ نے بڑے زوردار الفاظ میں پاکستان میں موجود تمام فرقوں کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی تلقین کی ہے اور تمام فرقوں کو مسلمان تسلیم کرتے ہوئے انہیں عالمی سطح پر ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرکے معاشیات اور سائنسی میدان میں ترقی کرنے کا نیک مشورہ دیا ہے، ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے اور اس پر کثیر شہادتیں پیش کی جاسکتی ہے کہ آپ کے ملک میں ”وہابی”عقیدے کے علاوہ تمام دیگر مسالک کے لوگوں کو بلاتکلف مشرک قرار دیا جاتا ہے اور انہیں اپنے مسلک اور عقیدے کی تبلیغ کی آزادی تو بڑی بات ہے اپنے عقیدہ کے اظہار کی بھی آزادی نہیں۔ چنانچہ اپنے مسلک اور عقیدہ کے اعتبار سے عبادات اور اپنی مذہبی رسوم ادا کرنے والوں (بالخصوص اہلِ سنت وجماعت کے افراد) کو آپ کی مذہبی پولیس والے گرفتار کرکے نہ صرف یہ کہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں بلکہ جبر اور ظلم کرکے اسے اپنا عقیدہ اور مسلک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں ورنہ اسے جیل کی نہایت تنگ و تاریک کوٹھری میں بند کرکے اس کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں اور آپ کی مذہبی پولیس کے اس ظلم کے خلاف آپ کے ملک کی کسی عدالت میں اپیل بھی نہیں ہوسکتی۔ اور اگر اتفاق سے وہ شخص غیر سعودی ہے یعنی اس کا تعلق برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش سے ہے تو خواہ کتنی ہی بڑی علمی اور روحانی شخصیت کیوں نہ ہو، آپ کی حکومت اسے جیل کی سزا بھگتنے کے بعد اس کا خروج کرادیتی ہے خواہ وہ حج وعمرہ کا زمانہ ہی کیوں نہ ہو، وہ شخص احرام کی حالت ہی میں کیوں نہ ہو، آپ کی مذہبی پولیس والے اس پر بالکل ترس نہیں کھاتے۔ ناگفتہ بہ ظلم اور تشدد کے علاوہ ایک مسلمان کی حیثیت سے حج و عمرہ ادا کرنے کا اس کا جو بنیادی حق ہے، اس سے آپ اسے محروم کردیتے ہیں، تو آپ کے قول و فعل میں یہ تضاد کیوں ہے؟
9)جس بات کی تلقین آپ پاکستان کے مسلمانوں کو کررہے ہیں آپ اس کا مظاہرہ اپنے ملک میں کیوں نہیں کرتے کیوں کہ بطورِ امامِ حرم آپ کی تقرری بھی اسی مذہبی نظام کا ایک حصہ ہے جس کے ماتحت مذہبی پولیس آتی ہے۔ اس لیے اگر آپ کی یہ باتیں حقیقت اور صداقت پر مبنی ہیں تو آپ نے اپنے مذہبی اور سیاسی نظام کی اصلاح کی کوشش کیوں نہ کیں اور اگر آپ نے کی لیکن آپ کی سنوائی نہ ہوئی تو آپ ایسے ظالمانہ اور جابرانہ نظام کا حصہ بن کر اسلام کی کون سی خدمت انجام دے رہے ہیں؟
10)کیا آپ کے ملک کے نظامِ تعلیم میں دوسرے مسالک و مذاہب کی تعلیم کی گنجائش ہے یا سب کو وہابیت کا ہی نصاب پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے؟
11)اگر آپ کی نظر میں مسلمانوں کے تمام فرقہ برابر ہیں اور آپ سب کو امّہ کا حصہ سمجھتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں آپ کی حکومت مساجد اور دینی مدارس کی تعمیر کے لیے جو مالی اعانت فرماتی ہے، وہ صرف اہلِ حدیث، دیوبندی اور جماعتِ اسلامی کے فرقوں کے لیے کیوں ہے؟ اہلِ سنت و جماعت کے افراد سے یہ امتیازی سلوک کیا آپ کے قول و فعل کا کھلا تضاد نہیں؟
درج بالا سطور کے لکھنے کا مقصد صحافی برادری اور میڈیا کی توجہ اس طرف مبذول کرانا مقصود ہے کہ آپ سب سے زیادہ آزادیئ اظہارِ رائے، آزادیئ صحافت، میڈیا کی آزادی، اطلاعات کی بہم رسانی سب کا بنیادی حق ہے اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کا نعرہ بلند کرتے ہیں اور عدلیہ کی مقننہ سے آزادی کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں اور بجا طور پر یہ سب کرتے ہیں۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب شیخانِ حرم یا آلِ شیخ کے خانوادے کی کوئی شخصیت پاکستان بطور مہمان آتی ہے تو میڈیا کے حضرات ان خادمانِ حرمین شریفین سے اس قسم کے سوالات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ ان سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ آپ کے ملک اور اس کے آئین کو تو اسلام کے دورِ اول والے خلافتِ راشدہ کے عادلانہ، رفاہی، فلاحی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عدالتی نظام کا نمونہ (Model) ہونا چاہیے تھا۔ لیکن گذشتہ سو سال سے آپ کے ملک میں ملوکیت، جبر و استیصال اور قبائلی، مذہبی، مسلکی و طبقاتی امتیازات پر مبنی سیاسی و معاشرتی نظام قائم ہے۔ کیا وجہ ہے کہ آپ دنیا بھر کے مسلمانوں کو یکجہتی اور اسلامی شریعت کے نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود اپنے ملک میں اور اپنے اوپر اس نظام کو جاری و ساری نہیں کرتے؟
امام حرم اور شیخِ حرم ہونا ایک بہت بڑا منصب ہے، دنیا کے کروڑوں مسلمان ان سے مذہبی اور سیاسی طور پر رہنمائی کی توقع رکھتے ہیں۔ اس لیے اس منصب پر فائز شخصیات پر بھی لازم ہے کہ سچائی، دیانتداری، نیک نیتی اور اسلام کے نظامِ عدل و احسان سے واقفیت اور اللہ سبحانہ، و تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم و محتشمؐ سے محبت کا جو کم سے کم معیار ہے اس پر پوری اتریں۔ جو لوگ ان تقاضوں کو پورا نہیں کرتے وہ بلاشبہ امانت کے ضائع کرنے والوں میں سے ہیں۔ قیامت کے دن رسوائی ان کا مقدر ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخانِ حرم کی مجلس میں میڈیا کے سارے ہی فرد وہابی بن جاتے ہیں یا پھر وہاں بلائے ہی وہابی جاتے ہیں؟ بہرحال قوم کو اس سے دلچسپی نہیں کہ ایک صحافی کا مذہب و مسلک کیا ہے بلکہ وہ تو اس چیز سے دلچسپی رکھتی ہے کہ ایک صحافی یا میڈیا مین کی دیانت ہی اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ ان کا یہ دعویٰ کہ ہم وہی لکھتے، چھاپتے اور وہ خبریں پیش کرتے ہیں جو سچ ہے، دلیل کا طالب ہے۔ کم از کم شیخِ حرم محترم محمد عبد الرحمن السدیس کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے ان کا یہ دعویٰ تشنہ دلیل ہے:
چو پردہ دار بشمشیر می زندہمہ را
کسی مقیمِ حریمِ حرم نخواہد ماند