مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی شیخ کے
کچھ ذاتی حالات
گناہ قاسم برگشتہ بخت بد اطوار
    بانی مدرسہ دیوبند مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی شیخ کی ولادت سوانح قاسمی کے مطابق ١٢٤٨؁ ہجری کے کسی مہینہ میں ہوئی ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ١٤٦)۔
    آپ کے والدین نے آپ کا نام خورشید حسین رکھا تھا مگر آپ نے محمد قاسم رکھ لیا سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٢٤ پر لکھا ہے کہ آپ کا تاریخی نام خورشید حسین تھا۔ بانی ئ مدرسہ دیوبند کے والد کا نام اسد علی ۔ دادا کا نام غلام شاہ تھا یہ دونوں نام مصنف دھماکہ کے مطابق شیعہ طرز پر ہیں ۔ اور پر دادا کا نام بریلوی طرف پر یعنی محمد بخش تھا ۔ ان کے ایک بھائی خواجہ بخش تھے( سوانح قاسمی ص ١١٣، ١١٥)
    آپ کے آباو اجداد شاہجہانی عہد میں جاگیر پا کر نا نوتہ آباد ہوئے تھے ( ص ١١٣) مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی جوڑ توڑ کا کھیل کھیلتے تھے ( سوانح قاسمی ص ١٦٠ ج١)
    یہی وجہ ہے کہ وہ اور ان کے معتقدین جوڑ توڑ کے فن میں ماہر ہیں اور تحریف و خیانت میں خصوصی عبور اور ملکہ تام حاصل ہے ۔ آپ کے خداندان کے اکثر لوگ شیعہ ہو گئے تھے ۔ ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ١٧١)
    آپ خود بھی اکثر شیعوں کے جلسہ میں آتے جاتے تھے ( ارواحِ ثلاثہ ص ٣١٣)
    مولوی محمد قاسم صاحب کو اکثر گستاخانہ خواب نظر آتے تھے جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں ۔”میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ گویا میں اللہ جل شانہ، کی گود میں بیٹھا ہوا ہوں ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ١٣٢)۔
    کتاب ارواحِ ثلاثہ میںیہ روایت بھی پائی جاتی ہے ۔ ”مولانا ( محمدقاسم ) نے ایک خواب ایامِ طالب علمی میں دیکھا تھا کہ میں ( معاذ اللہ ) خانہ کعبہ کی چھت کھڑاہوں اور مجھ سے ہزاروں نہریں جاری ہو رہی ہیں۔(ص ٢٠٤ و سوانح قاسمی جلد اوّل ص ١٣٣)
    مولانا نانوتوی نے خواب میں دیکھا تھا کہ خانہ کعبہ کی چھت پر کسی اونچی شَے پر بیٹھاہوں ( معاذ اللہ ) سوانح قاسمی ص ١٣٤ بحوالہ ارواح ثلاثہ ص ١٦٩)
    مولوی محمد قاسم نانوتوی صاحب کا انگریزی مدرسہ دہلی سے بھی تعلق رہا ( تذکرہ علمائے ہند فارسی ص ٢١٠ نولکشور پر یس لکھنؤ ١٩١٤ئ؁)
    یہی وجہ ہے کہ آپ نے آخر دم تک انگریز کا حق نمک ادا کیا اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی اہم خدمات سرانجام دیں ۔ آپ کے ایک ہمعصر وہم عقیدہ مولوی محمد یعقوب صاحب نانوتوی بھی ( انگریزی ) سرکاری ملازمت پر تھے بعد میں سبکدوش ہوئے ( تذکرہ مولانا محمد احسن نانوتوی ص ١٩٢)
    مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کچھ زیادہ ذہین نہ تھے ۔ انہوں نے مطبع مجتبائی میرٹھ میں ملازمت اختیار کرلی اور چھاپہ خانہ میں ملازم ہو گئے ( کتاب مولانا محمد احسن صاحب نانوتوی ص ٢١٣)۔
    مولوی رحمان علی صاحب مصنف تذکرہ علماء ہند آپ کے دہلی کے انگریزی مدرسہ سے تعلق کے بارے میں لکھتے ہیں:
    ”بعد از فراغ علوم چندے بمدرسہ انگریزی واقع دہلی گرفتہ ”۔
    آپ کا سوانح نگار مناظر احسن گیلانی لکھتا ہے ۔ بقول مولانا طیب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت والا کو گویا عورتوں سے بہت نفرت تھی ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٥٢٣)۔
    لیکن اس کے برعکس آپ بچوں سے بہت ہنسی مذاق فرمایا کرتے تھے اور ان کے کمر بند کھول دیا کرتے تھے ( سوانح قاسمی ص ٤٦٦ جلد اوّل)
    یہ مرض آپ کی صحبت کے اثر سے آپ کے تلامذہ تک پھیلا ہوا تھا ۔ چنانچہ آپکے ایک خصوصی تلمیذ کا واقعہ ارواحِ ثلاثہ کے الفاظ میں ملاحظہ ہو حکایت نمبر ٢٥١ حضرت والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ مولانا منصور علی خاں صاحب مرحوم مراد آبادی حضرت (قاسم ) نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔ انہوں نے اپنا واقعہ مجھ سے نقل فرمایا کہ مجھے ایک لڑ کے سے عشق ہو گیا اور اس کی محبت نے طبیعت پر اس قدر غلبہ پایا کہ رات دن اسی کے تصور میں گذرنے لگے ( ارواح ثلاثہ ص ٢٩٢)
    مولوی محمد قاسم صاحب واعظ و تبلیغ کرنے والوںکو بے حیا کہا کرتے تھے ۔ وہ خود اپنے متعلق لکھتے ہیں کہ میں ( قاسم نانوتوی ) بے حیا ہوں وعظ کہہ لیتا ہوں ۔ ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٣٩٩) ۔ وہ غلط مسئلے بتا دیا کرتے تھے اور پھر صحیح مسئلہ معلوم ہوتا تو لوگوں کے گھر جا کر اطلاع دیا کرتے تھے ۔ چنانچہ آپ کا سوانح نگار لکھتا ہے کہ وہ ایک شخص کے گھر گئے اور کہنے لگے :
    ”ہم نے اس وقت مسئلہ غلط بتا دیا تھا ۔ تمہارے آنے کے بعد ایک شخص نے صحیح مسئلہ ہم کو بتایا اور وہ اس طرح ہے ۔” ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٣٨٨)
    لیکن افسوس کہ آپ نے تحذیر الناس میں خاتم النبییّن کے جو جدید معنی گھڑے اور مرزاقادیانی کی جو غیر مشروط تائید و حمایت کی اس سے آپ نے بار بار توجہ دلانے کے باوجود توبہ نہ کی اور نہ غلط مسئلہ سے رجوع کیا ۔ حالانکہ آپ نے ایک ہم عصر و ہم عقیدہ مولانا محمد احسن صاحب نانوتوی نے بھی تحذیر الناس کی اس عبارت سے غیر مشروط تو بہ کرلی تھی۔
    ملاحظہ ہو ”مولانا محمد احسن ( نانوتوی ) نے آخر میں ( اعلیٰ حضرت علیہ الرحمتہ کے والد بزرگوار) مولوی نقی علی خاں کے ایک ساتھی رحمت حسین کو یہ لکھا۔”جناب مخدوم و مکرم بندہ دام مجد ہم پس از سلام مسنون ۔ التماس یہ ہے کہ واقع میں جواب مرسلہ مولوی نقی علی خاں صاحب میری تحریر کے مطابق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ کو اس تحریر پر اصرار نہیں جس وقت علماء کے اقوال ہا مستندہ سے آئیں غلطی ثابت ہو گی میں فوراً اس کو مان لوں گا۔ مگر مولوی ( نقی علی خان ) صاحب نے براہِ مسافر نوازی کوئی غلطی تو ثابت نہ کی اور نہ مجھ کو اس کی اطلاع دی بلکہ اوّل ہی کفر کا حکم شائع فرمایا اور تمام بریلی میں لوگ اس طرح کہتے پھرے خیر میں نے خدا کے حوالے کیا ۔ اگر اس تحریر سے میں عند اللہ کا فر ہوں تو توبہ کرتا ہوں خدا تعالیٰ قبول کرے ۔ زیادہ نیاز ۔ عاصی محمد احسن عفی عنہ،
(کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی ص ٨٨)                
    اسی کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی کے صفحہ ٩١پر ہے کہ اثر ابن عباس کی بحث اور مناظرہ احمد یہ اور تحذیر الناس کے جواب میں کئی رسالے لکھے گئے۔ ہمارے مطالعہ و علم میں مندرجہ ذیل رسالے آئے ہیں : –
١۔    تحقیقات محمدیہ حل اوہام نجد ١٢٨٩ھ؁ ، ١٨٧٢ئ؁ از مولوی فضل مجید بدایونی ۔ المتوفی ١٣٢٤ھ؁ ١٩٠٦ئ؁ ( تلمیذ مولانا عبد القادر بدایونی)
٢۔     الکلام الاحسن ۔ مولانا محمد احسن نانوتوی کے رد میں مولوی ہدایت علی بریلوی کا رسالہ ہے ۔
٣۔    تنبیہ الجہال بالہام الباسط المتعال ١٢٩١ھ؁ ١٨٧٤ئ؁ مولانا مفتی حافظ بخش بدایونی اس رسالہ میں مناظرہ احمدیہ اور تحذیر الناس کا رد کیا گیا ہے ۔ مولوی نقی علی خاں کی حمایت کی گئی ہے ۔
٤۔    قول الفصیح ۔ مولوی فصیح الدین بدایونی۔
٥۔    افاداتِ صمدیہ۔
٦۔    رد رسالہ قانونِ شریعت۔
٧۔    ابطال اغلاط قاسمیہ ۔ از مولوی عبد اللہ امام جامع مسجد بمبئی۔
٨۔    فتاوایئ بے نظیر ۔
٩۔    کشف الالتباس فی اثرابن عباس۔
١٠۔    اس فی موازنتہ اثر ابن عباس وغیرہ ( مولانا محمد احسن نانوتوی صفحہ٩١تا ٩٤)
    بلکہ خود سوانح قاسمی میں ہے ”اُسی زمانہ میں ”تحذیر الناس” نامی رسالہ کے بعض دُعاوی کی وجہ سے بعض مولویوں کی طرف سے خود سیدنا امام الکبیر ( مولوی محمد قاسم نانوتوی ) پر طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری تھا ”۔ ( ص ٣٧٠ ، ج ١)
    متذکرہ بالا حوالہ جات سے واضح ہوا کہ تحذیر الناس کی کفریہ عبارت پر صرف سیدنا اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ، ہی نے مواخذہ نہ فرمایا بلکہ آپ سے پہلے بھی علماء اس کا رد بلیغ فرما چکے تھے لیکن نانوتوی صاحب کے مقدر میں تو بہ نہ تھی ۔ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی ”فرض و واجب تو نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تقریباً تواتر کے رنگ میں لوگوں سے یہ یہ روائتیں نقل کی جاتی ہیں کہ دوسروں کے خیال سے آپ نفلی نمازوں کو بھی ترک فرما دیا کرتے تھے ”۔ (سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٣٦٥)
    ”بعض اوقات ناجائز یا مشتبہ آمدنی رکھنے والوں کی دعوتوں میں شریک ہونے پر آپ کو مجبور ہونا پڑتا تھا ۔ شریک بھی ہوتے تھے اور دعوت کرنے والے کی تسلی کےلئے کچھ تناول بھی فرمالیتے تھے لیکن گھر پہنچ کر خان صاحب کی شہادت ہے کہ قے کرتے تھے”۔
( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٣٦٥)
    مولوی قاسم صاحب اپنے مہمانوں کا خاص خیال رکھتے تھے اور حقہ پینے والوں کو پہچان لیتے تھے ۔ ان کو حقہ خود بھر کر پلاتے تھے ۔
( سوانح قاسمی جلد اوّل ص٤٦٨)
    آپ شیرینی پر ختم کے بھی قائل تھے ۔ چنانچہ لکھا ہے ۔ ”رمضان کا چاند دیکھ کر مولوی صاحب نے قرآن شریف یا د کیا تھا ۔ اوّل وہاں سنایا اور جہاز میں کیا سیر تھا بعد عید مکلہ پہنچ کر حلوائے مسقط خرید فرما کر شیرینی ختم دوستوں کو تقسیم فرمائی ( سوانح قاسمی جلد اوّل ص ٣٨)
    آپ کا حلیہ آپ کے سوانح نگار نے یوں لکھاہے ”۔ قدرے داغ چیچک نمودار تھے”۔ ( مذہب منصور ص ١٩٥) ”میانہ قد، نہ موٹے اور نہ بالکل لاغر تھے”۔
    حکیم مولوی منصور علی خاں فرماتے ہیں کہ آپ کا رنگ سانولا تھاواللہ اعلم اپنے ان الفاظ سے ان کی کیا مراد ہے ”۔ (سوانح قاسمی جلد اوّل ص ١٥٤)
    مولوی صاحب کو اپنی دست بوسی اور قدم بوسی کروانے کا بھی بہت شوق تھا ۔ ان کا سوانح نگار لکھتا ہے ۔”ان کی دست بوسی اور قدم بوسی کے واسطے ہاتھ اور پیر کی نزاکت اور خوبصورتی کافی تھی ۔ وہ کچھ ایسے موزوں اور دلکش تھے کہ بے اختیار بوسہ دینے کو جی چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی سی نزاکت اور دلبری کسی معشوق میں بھی نہ دیکھی”۔ (سوانح قاسمی جلد اوّل ص ١٥٥)
    آپ کا سوانح نگار لکھتا ہے ۔”جب آپ بیمارہوئے غفلت کی شدت لمحہ لمحہ سے بڑھتی ہی چلی جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ظہر کا وقت آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پکارنے والے پکار رہے ہیں ۔ یاد دلا رہے ہیں یاد دلا رہے ہیں کہ (حضرت ) ظہر کی نماز کا وقت ہے۔ مصنف امام موجود تھے لکھتے ہیں کہ نماز کےلئے کہا تو سوائے اچھا کے اور کچھ نہ کر سکے نہ تیمم کی طرف توجہ ہوئی نہ نما زکی طرف ”۔ (سوانح قاسمی جلد دوم ص ١١٨)
    سوانح نگار لکھتا ہے جب آپ کے مرنے کا وقت قریب آیا تو سرورِ کائنات خاتم المرسلین رحمتہ اللعلمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم خلفاء اربعہ راشدین تشریف لائے اور فرشتے بھی نظر آئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کرسی پر تشریف فرما تھے۔ خلفاء اربعہ راشدین کھڑے تھے ۔ سامنے ایک پلنگ پر دیکھا مولانا ( نانوتوی) آئے ( معا ذ اللہ ) رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم آپ کی پیشانی کو بوسہ دیتے ہوئے فرمارہے ہیں ”اَے حبیب آنے میں کیا دیر ہے ”۔ (سوانح قاسمی جلد دوم ص ١٢٠)
    خواب میں انہوں نے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو محسوس ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جسم مبارک مولانا ( نانوتوی ) کے جسم مبارک میں سمانا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ ہر عضو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہر عضو مولانا میں سما گیا الاسر مبارک ۔
( سوانح قاسمی جلد دوم ص ١٢٩)
    مولوی محمد قاسم صاحب کے سوانح نگاروں نے لکھا ہے ۔ جب مولوی صاحب کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے مولوی محمود الحسن صاحب سے کہا مجھے کہیں سے ککڑی لا کر کھلاؤ۔ ( ارواحِ ثلاثہ ص ٢٧١)
    چنانچہ آپ ککڑی کھاتے کھاتے دنیا سے رخصت ہوئے جبکہ حقیقی بزرگانِ دین اولیائے کا ملین دعلمائے عاملین کی زبان پر وقت آخر کلمہ طیبہ ۔ اللہ ہو کا ذکر ہوتا ہے ۔
    دیوبندیوں کا کہنا ہے ۔ مولوی محمد قاسم صاحب کی وفات ، وفات سرورِ عالم کا نمونہ تھی اور اس مصرعہ سے آپ کی تاریخ وفات نکالی گئی ع وفات سرورِ عالم کا یہ نمونہ ہے ١٢٩٧ھ (سوانح قاسمی جلد دوم ص ١٣٧)
    ٤جمادی الاوّل ١٢٩٧ھ؁ بروز پنجشنبہ مولانا محمد قاسم نانوتوی کا وصال ہوا۔ (کتاب مولانا محمد احسن نانوتوی ص ٢٢٣)
    مصنف سوانح قاسمی لکھتاہے ایک قیامت برپا ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کے انتقال کا سا غم و الم کبھی نہ دیکھا تھا ایک ماتم عام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر میں وسعت نہ تھی۔ مدرسہ (دیوبند ) میں لا کر جنازے کو رکھا( سوانح قاسمی جلد ٢ ص ١٣٩)۔
    سینکڑوں آدمی جنازہ کو اٹھانا چاہتے تھے ۔ چار پائی چِر چِر کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت آدمی جنازہ میں کمبل پوش فقراء موجود تھے۔ مصنف امام کا بیان ہے کہ مغرب سے پہلے نماز ہوئی ( سوانح قاسمی جلد دوم ص ١٤١)
    لکھا ہے ایک عبرت انگیز مشاہدہ یہ بھی تھا کہ کمبل پوش فقراء جواچانک خدا جانے کہاں سمٹ آئے تھے نماز اور دفن کے وقت تو دیکھے گئے لیکن لکھتے ہیں کہ بعد دفن سب غائب ہو گئے ۔ دفن کے بعد ہی یہ غائب ہو جانے والے رجال کون تھے ؟ کہاں سے آئے تھے کہاں چلے گئے؟ اس کا جواب کیا دیا جاسکتا ہے ۔ ( سوانح قاسمی ص ١٤٣ ج ٢)
    سوانح قاسمی جلد ٢ صفحہ ١٤٨ و ١٤٩ کے درمیان ایک فوٹو لگا ہوا ہے ۔ جس میں ایک اونچی قبر کے سرہانے ایک بہت بڑا پتھر لگا ہوا ہے۔ لکھا ہے ایک دفعہ نہیں ، متعدد مواقع پر مشاہدہ کرنے والوں نے وفات کے بعد دیکھاکہ ”مولانا (قاسم ) نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ جسدِ عنصری کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے تھے ”۔ ( سوانح قاسمی جلد دوم ص ١٥٠ و ارواحِ ثلاثہ ص ١٨٥)
    بانی ئ مدرسہ دیوبند مولوی محمد قسم صاحب نانوتوی کی یہ مختصر سوانح عمری ہم نے اُن کے سوانح نگاروں کے مستند حوالوں سے بیان کی ہے ۔ قارئین کرام کو اس سے دیوبندی وہابی عقائد کی حقیقت کا پتہ چلے گا ۔ جو امور حضرات اولیاء اللہ قدست اسرارہم کےلئے کفر وشرک و بدعت اور ناممکن سمجھے جاتے ہیں ۔ وہ سب کمالات بانی ئ مدرسہ دیو بند میں موجود بتائے جاتے ہیں ۔ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے تحذیر الناس نامی ایک کتاب لکھ کر مسلمانانِ ہند میں فتنہ کی بنیاد ڈالی۔
    اس کتاب سے مرزائیوں ، قادیانیوں اور دیگر جدید نبوت کے بانیوں کو بہت فائدہ پہنچا ۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کذاب نے اپنے نام نہاد دعویئ نبوت کی بنیاد تحذیر الناس پر رکھی ۔ ( ملاحظہ ہوں قادیانی کتب)
    مولوی محمد قاسم صاحب نے ختم نبوت کے وہ معنی بتائے جو آج تک مسلمانوں میں رائج نہ تھے اور تمام علماء و فقہاء متقدمین و متاخرین کی تصریحات اور خود سرکارِ رسالت علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان لا نبی بعدیکے سرا سر منافی تھے ۔ خود بانی ئ مدرسہ دیوبند کی سوانح قاسمی میں ہے ۔
    ”نیز اسی زمانہ میں تحذیر الناس نامی رسالہ کے بعض دُعاوی کی وجہ سے بعض مولویوں کی طرف سے خود سیدنا امام الکبیر ( مولوی قاسم ) پر طعن و تشنیع کا سلسلہ جاری تھا ”۔ ( جلد اوّل ص ٣٧٠)
    تحذیر الناس کی عقیدہ ختم نبوت کے منافی عبارات یہ ہیں جن پر اکابر علماء عرب و عجم نے فتویٰ کفر صادر فرمایا ۔
    ”اوّل معنی خاتم النبیّین معلوم کرنے چاہئیں تا کہ فہم جواب میں کچھ دِقت نہ ہو ۔ سو عوام کے خیال میں رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ہے اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ۔ مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدیم یا تا خیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں پھر مقامِ مدح میں ولٰکن رسُول اللّٰہ و خاتم النّبیّینفرمانا اس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتاہے ” ۔
( تحذیر الناس ص ٥۔٦)
    اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
( تحذیر الناس ص ٢٢)
    قارئین کرام سنجیدگی کے ساتھ دیوبندی مذہب کی حقیقت پر غور کریں اور از راہِ انصاف خود فیصلہ کریں کہ قادیانی کذاب کی نام نہاد نبوت کو تقویت پہنچانے والا کون تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟